حوزہ نیوز ایجنسی: 16 نومبر 2007 تاریخِ کا وہ سیاہ دن ہے کہ جب سرزمینِ مقاومت، مزاحمت اور ولایت سرزمینِ شہداء پاراچنار پاکستان میں وقت کے یزید تکفیری دہشت گرد گروہ طالبان نے پاراچنار میں ہی موجود ان کے ہم فکر دہشت گردوں کی مرضی سے ان کی مسجد پر صدارت کرتے ہوئے جمعہ کی نماز کے دوارن مسجد کے میناروں سے راکٹ لانچرز سے حملہ کیا اور مرکزی امام بارگاہ پاراچنار میں نماز ادا کرتے ہوئے 25 سے زائد نمازی شہید اور 80 سے زائد مؤمنین زخمی ہوئے۔
تاریخِ کا یہ وہ سیاہ دن تھا کہ جب باقاعدہ جنگ اور چار سالہ طویل محاصرے کا آغا ہوا اور تکفیری دہشت گرد ملک دشمن طالبان نے پاراچنار کے چاروں اطراف اس شدت کے ساتھ حملہ کیا کہ شہرِ پاراچنار کی سرزمین کربلائے دوم کا منظر پیش کرنے لگی۔
جہاں تکفیری دہشت گرد گروہ کی جانب سے سیکورٹی فورسز کی موجودگی میں مسلسل پاراچنار کی سرزمین پر حملہ کرنا تھا تو وہیں پر علی کے وفادار، حیدرِ کرار کے ماننے والے اور عباسِ علمدار جیسی شجاعت رکھنے والے زینبی جوان پاراچنار کی سرزمین کے دفاع کیلئے نکل پڑے تو دوسری جانب انہی تکفیری دہشت گرد گروہ کی جانب سے مظلوم عوام پر مظالم، شیعہ مؤمنین کو گاڑیوں سے اتار کر شمر لعین کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گلے کاٹنا اور حد یہ تھی کہ ان کٹی لاشوں کو گرم تیل میں ڈال کر ان کے لواحقین کو تحفے میں کٹے سر بھیج دینا ایک رواج بن چکا تھا۔
یہ سب سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں ہوتا رہا، جس کی باقاعدہ ویڈیوز موجود ہیں۔
تکفیری دہشت گردوں اور ملک دشمن طالبان کی جانب سے بھاری ہتھیاروں اور بڑی طاقت کے استعمال نے مسلسل جنگ شروع کردی اور پاراچنار کے مؤمنین کا دفاع اس قدر سخت تھا کہ سال 2007 سے لے کر 2011 تک مسلسل پاراچنار کی سر زمین کربلائے معلیٰ بنی رہی، جہاں تقریباً 3 ہزار 5 سو سے زائد پاراچنار کے جوان شہید اور 5 ہزار سے زائد مؤمنین پاراچنار زخمی ہوئے، جس میں بچے بھی شامل تھے۔
اس شدید جنگ کے دوران حالات اس قدر کشیدہ ہو چکے تھے کہ زمینی راستے بند، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور زخمی مؤمنین کیلئے راستے بند ہونے کی وجہ سے ادویات کا نا ملنا اس بات کا سبب بنا کہ کافی مؤمنین اس وجہ سے شہید ہوگئے۔
آخر کار 4 سال کی اس کثیر مدت کی تیز جنگ پاراچنار کے مؤمنین کی بہادری، شجاعت مسلسل مقاومت اور دلیرانہ جرأت مندی کی بنا پر تکفیری دہشت گرد گروہ طالبان کو ناکوں چنے چھبوا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور سرزمینِ شہداء پاراچنار سے طالبان جیسے نجس وجود سے پاک کر دیا، جس کے بعد پاراچنار کی یہ سرزمین ان مظلوم شہداء اور با ہمت، نڈر نوجوانوں اور با ہمت مؤمنین کی وجہ سے سرزمینِ مقاومت بنی اور آج تک اس سرزمین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس سرزمین کو اثرِ حاضر کربلائے دوم اور سرزمینِ مقاومت، مزاحمت، شجاعت، ولایت پاراچنار پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ہم سلام اور خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں ان مظلوم شہداء کو جہنوں نے سرزمینِ پاراچنار اور حق کا دفاع کرتے ہوے ملک دشمن طالبان کے نا پاک اعزائم کو پسپا کرتے ہوئے شہادت کو ہستے ہوئے سینے سے لگایا۔
ہم سلام پیش کرتے ہیں ان مظلوم شہداء کی بے بہا قربانیوں کو جہنوں نے اس سرزمین کی حفاظت کی خاطر اپنے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کروا دیا۔
ہم سلام پیش کرتے ہیں ان مظلوم شہداء کو جہنوں نے تکفیری دہشت گرد گروہ کے خلاف مزاحمت کی اور مبارزہ آرائی کرتے ہوئے سر زمین پاراچنار کو فتح سے ہمکنار کیا۔
ہم سلام پیش کرتے ہیں ان مظلوم شہداء کے خانوادہ کو جہنوں نے ان مرد مجاہد دلاوران کو مردِ میدان بھیجا اور زینبی کردار بناء کر سنتِ زینب ( سلام اللہ علیھا ) پر عمل پیرا ہوئے۔
ہم سلام پیش کرتے ہیں ان معصوم بچوں اور ان نوجوانان کو جنہوں نے کربلائے اثرِ پاراچنار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر اثرِ حاضر کی برپاہ شدہ کربلا یعنی شام کی سرزمین پر دفاعِ حرم کی خاطر قربان کر کے شہادت کے شیریں جام سے خود کو سیراب کیا اور کچھ آج بھی غازی بن کر میدان میں ڈٹے کھڑے ہیں۔
ہم سلام پیش کرتے ہے پارا چنار کے ان غیور والدین کو جنہوں نے اتنے سخت حالات میں مقاومت کی اور راہِ کربلا کے پیروکار بن کر حق کے راستے پر ڈٹے رہے اور ایسے نوجوانان کو اس دنیا میں متولد کیا جنکی تربیت اس انداز میں کی کہ راہِ حسینی پر چلنے والے یہ جوان زینبی پروانے بن کر سال 2013 میں دفاع حریمِ اہلبیت ( علیہ السّلام ) و دفاعِ حضرت زینب ( سلام اللہ علیھا ) کے لیے شام کی مقدس سرزمین پر قدم رکھا۔ سپر پاور امریکہ، اسرائیل اور ال سعود کی ناجائز اولاد داعش کو ان کے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا اور عبرت ناک شکست سے دو چار کر دیا۔